غم ہی لے دے کے مری دولت بیدار نہیں
یہ خوشی بھی ہے میسر کوئی غم خوار نہیں
خود سے بھی توڑ چکا ہوں میں تعلق اپنا
اب مری راہ میں حائل کوئی دیوار نہیں
ایسی سنسان کبھی پہلے نہ تھی ہجر کی رات
دور تک قافلۂ صبح کے آثار نہیں
بات آسان فراوانیٔ غم نے کر دی
اب مجھے شکوۂ ناکامئ اظہار نہیں
زندہ رہ لوں کسی صورت تو بڑی بات ہے یہ
ورنہ جاں سے تو گزرنا کوئی دشوار نہیں
دام وحشت سے رہائی نہیں ممکن شاید
ہوں اسیر اپنا بھی صرف اس کا گرفتار نہیں
قصۂ غم بھی وہی میں بھی وہی دل بھی وہی
پر وہ پہلا سا خلوص در و دیوار نہیں

غزل
غم ہی لے دے کے مری دولت بیدار نہیں
مشفق خواجہ