غم ہر اک آنکھ کو چھلکائے ضروری تو نہیں
ابر اٹھے اور برس جائے ضروری تو نہیں
برق صیاد کے گھر پر بھی تو گر سکتی ہے
آشیانوں پہ ہی لہرائے ضروری تو نہیں
راہبر راہ مسافر کو دکھا دیتا ہے
وہی منزل پہ پہنچ جائے ضروری تو نہیں
نوک ہر خار خطرناک تو ہوتی ہے مگر
سب کے دامن سے الجھ جائے ضروری تو نہیں
غنچے مرجھاتے ہیں اور شاخ سے گر جاتے ہیں
ہر کلی پھول ہی بن جائے ضروری تو نہیں
غزل
غم ہر اک آنکھ کو چھلکائے ضروری تو نہیں
فنا نظامی کانپوری