غم ہنسی میں چھپا دیا ہوگا
چشم نم نے بتا دیا ہوگا
بھول جانے کی اس کو عادت تھی
اس نے مجھ کو بھلا دیا ہوگا
ایک خط تھا ثبوت چاہت کا
وہ بھی اس نے جلا دیا ہوگا
رات چپکے سے لے اڑی تھی ہوا
راز دل کا بتا دیا ہوگا
ہجر کے مارے دل کو بھی اس نے
جانے کیسے سلا دیا ہوگا
پھر بلایا ہے آج ناصح نے
گل کسی نے کھلا دیا ہوگا
ہے یقیں مجھ کو ذکر پر میرے
وہ فقط مسکرا دیا ہوگا

غزل
غم ہنسی میں چھپا دیا ہوگا
الماس شبی