غم زمانہ نہیں اک عذاب ہے ساقی
شراب لا مری حالت خراب ہے ساقی
شباب کے لیے توبہ عذاب ہے ساقی
شراب لا مجھے پاس شباب ہے ساقی
اٹھا پیالہ کہ گلشن پہ پھر برسنے لگی
وہ مے کہ جس کا قدح ماہتاب ہے ساقی
نکال پردۂ مینا سے دختر رز کو
گھٹا میں کس لئے یہ ماہتاب ہے ساقی
تو واعظوں کی نہ سن میکشوں کی خدمت کر
گنہ ثواب کی خاطر ثواب ہے ساقی
زمانے بھر کے غموں کو ہے دعوت غرا
کہ ایک جام میں سب کا جواب ہے ساقی
کلام جس کا ہے معراج حافظؔ و خیامؔ
یہی وہ اخترؔ خانہ خراب ہے ساقی
غزل
غم زمانہ نہیں اک عذاب ہے ساقی
اختر شیرانی