غم ماضی غم حاضر غم فردا کے سوا
زندگی کچھ بھی نہیں خون تمنا کے سوا
دیکھتے دیکھتے ہی ناؤ کہاں ڈوب گئی
کس کو معلوم ہے طغیانیٔ دریا کے سوا
ان سے روداد ستم کہئے تو کیوں کر کہئے
جن کو کچھ یاد نہیں شکوۂ بے جا کے سوا
میرے اس حال پریشاں کی خبر کس کو نہیں
سب پہ ظاہر ہے حقیقت یہ مسیحا کے سوا
مشکلیں ٹوٹ پڑیں جب بھی حوادث کی طرح
کوئی اپنا نہ ہوا اک دل تنہا کے سوا
پاؤں میں جتنے بھی چھالے تھے سبھی پھوٹ پڑے
کوئی سمجھا نہ مرے درد کو صحرا کے سوا
عرشؔ کل رات جو محفل میں ہوئے ہنگامے
جانتا کون ہے وہ ساغر و صہبا کے سوا
غزل
غم ماضی غم حاضر غم فردا کے سوا
عرش صہبائی