غم جگر شکن و درد جاں ستاں دیکھا
تمہارے عشق میں کیا کیا نہ مہرباں دیکھا
ہر ایک مجلس خوباں میں دل ستاں دیکھا
نہ کوئی تجھ سا پر اے آفت جہاں دیکھا
میں وہ اسیر ہوں جن نے کہ داغ یاس سوا
نہ سیر لالہ ستاں کی نہ گلستاں دیکھا
جس آنکھ میں نہ سماتی تھی بوند آنسو کی
اب اس نے غم میں ترے سیل خوں رواں دیکھا
نہ کوہ کن نے وہ دیکھا کبھی نہ مجنوں نے
تمہارے عشق میں جو ہم نے اے بتاں دیکھا
ہزار گرچہ ہیں بیمار تیری آنکھوں کے
پر ان میں کوئی بھلا مجھ سا ناتواں دیکھا
میں وہ مریض ہوں پیارے کہ جن نے مدت سے
سوائے درد نہ آرام یک زماں دیکھا
کیا سوال میں بیدارؔ سے کہ اے مہجور
کبھی بھی تو نے بھلا وصل دل ستاں دیکھا
مفارقت ہی میں کیا عمر کھوئی میری طرح
کہ عشق میں دل غمگیں نہ شادماں دیکھا
یہ سن کے رونے لگا اور بعد رونے کے
کہا نہ پوچھو جو کچھ میں نے اے میاں دیکھا
فراق یار جفائے شمانت اعدا
غم دل و ستم پند ناصحاں دیکھا
نہ پائی ذرہ بھی اس اشک گرم کی تاثیر
نہ ایک دم اثر نالہ و فغاں دیکھا
جہاں میں وصل ہے سنتا ہوں مدتوں سے ولیک
سوائے نام نہ اس کا کہیں نشاں دیکھا
غزل
غم جگر شکن و درد جاں ستاں دیکھا
میر محمدی بیدار