غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے
وہ ساری عمر انتظار کرنے والے کیا ہوئے
بہم ہوئے بغیر جو گزر گئیں وہ ساعتیں
وہ ایک ایک پل شمار کرنے والے کیا ہوئے
دعائے نیم شب کی رسم کیسے ختم ہو گئی
وہ حرف جاں پہ اعتبار کرنے والے کیا ہوئے
کہاں ہیں وہ جو دشت آرزو میں خاک ہو گئے
وہ لمحۂ ابد شکار کرنے والے کیا ہوئے
طلب کے ساحلوں پہ جلتی کشتیاں بتائیں گی
شناوری پہ اعتبار کرنے والے کیا ہوئے
غزل
غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے
افتخار عارف