غم جاناں میں سمو کر غم دوراں ہم نے
دو فسانوں کو دیا ایک ہی عنواں ہم نے
غم سے گھبرا کے جو کی کوشش درماں ہم نے
اور بھی کانٹوں میں الجھا لیا داماں ہم نے
دیکھیں کیا ہوتا ہے تجدید نشیمن کا سماں
منتخب کی ہے پھر اک شاخ گلستاں ہم نے
غم سے بچنے کے لئے وضع کئے تھے جو اصول
کر دیئے نازکیٔ وقت پہ قرباں ہم نے
آج مختارؔ اسیر غم دوراں ہے وہ دل
جس کو سمجھا تھا حریف غم دوراں ہم نے
غزل
غم جاناں میں سمو کر غم دوراں ہم نے
مختار ہاشمی