غم انساں سے جو دل شعلہ بجاں ہوتا ہے
وہی ہر دور میں معمار جہاں ہوتا ہے
دل میں رہرو کے اگر عزم جواں ہوتا ہے
گام بھٹکا بھی تو منزل کا نشاں ہوتا ہے
ہونٹ سینے سے سوا سوز نہاں ہوتا ہے
شعلہ دیتا ہے تو کچھ اور دھواں ہوتا ہے
نعرۂ حق کو دباتے ہیں کھلی بزم میں جب
یہ کسی گوشۂ زنداں میں جواں ہوتا ہے
کون پتھر ہے گہر کون پرکھنے کی ہے بات
دیکھنے ہی سے یہ اندازہ کہاں ہوتا ہے
عشق میں شکر و شکایت میں کوئی فرق نہیں
اپنا اپنا الگ انداز بیاں ہوتا ہے
میں بھی انصاف کا خواہاں ہوں مگر اے مالک
تیری دنیا میں اب انصاف کہاں ہوتا ہے
کون سا ہے یہ محبت میں مقام اے ملاؔ
کلمۂ لطف بھی اب دل پہ گراں ہوتا ہے
غزل
غم انساں سے جو دل شعلہ بجاں ہوتا ہے
آنند نرائن ملا