EN हिंदी
غم حیات سے جب واسطہ پڑا ہوگا | شیح شیری
gham-e-hayat se jab wasta paDa hoga

غزل

غم حیات سے جب واسطہ پڑا ہوگا

اسد بھوپالی

;

غم حیات سے جب واسطہ پڑا ہوگا
مجھے بھی آپ نے دل سے بھلا دیا ہوگا

سنا ہے آج وہ غمگین تھے ملول سے تھے
کوئی خراب وفا یاد آ گیا ہوگا

نوازشیں ہوں بہت احتیاط سے ورنہ
مری تباہی سے تم پر بھی تبصرا ہوگا

کسی کا آج سہارا لیا تو ہے دل نے
مگر وہ درد بہت صبر آزما ہوگا

جدائی عشق کی تقدیر ہی سہی غم خوار
مگر نہ جانے وہاں ان کا حال کیا ہوگا

بس آ بھی جاؤ بدل دیں حیات کی تقدیر
ہمارے ساتھ زمانے کا فیصلہ ہوگا

خیال قربت محبوب چھوڑ دامن چھوڑ
کہ میرا فرض مری راہ دیکھتا ہوگا

بس ایک نعرۂ رندانہ ایک جرعۂ تلخ
پھر اس کے بعد جو عالم بھی ہو نیا ہوگا

مجھی سے شکوۂ گستاخی نظر کیوں ہے
تمہیں تو سارا زمانہ ہی دیکھتا ہوگا

اسدؔ کو تم نہیں پہچانتے تعجب ہے
اسے تو شہر کا ہر شخص جانتا ہوگا