غم فراق مے و جام کا خیال آیا
سفید بال لیے سر پہ اک وبال آیا
ملے گا غیر بھی ان کے گلے بہ شوق اے دل
حلال کرنے مجھے عید کا ہلال آیا
اگر ہے دیدۂ روشن تو آفتاب کو دیکھ
ادھر عروج ہوا اور ادھر زوال آیا
لٹائے دیتے ہیں ان موتیوں کو دیدۂ شوق
بھر آئے اشک کہ مفلس کے ہاتھ مال آیا
لگی نسیم بہاری جو معرفت گانے
گلوں پہ کچھ نہیں موقوف سب کو حال آیا
پیام بر کو عبث دے کے خط ادھر بھیجا
غریب اور وہاں سے شکستہ حال آیا
خدا خدا کرو اے شادؔ اس پہ نخوت کیا
جو شاعری تمہیں آئی تو کیا کمال آیا
غزل
غم فراق مے و جام کا خیال آیا
شاد عظیم آبادی