غم فراق بھی آخر فروغ پا ہی گیا
کہ فکر ڈھل کے فقیری میں راس آ ہی گیا
یہ راہ وہ ہے کہ مٹنا بھی پڑ سکے ہے یہاں
تو شکر کر کہ ترا صرف آسرا ہی گیا
ملی ہے ترک تعلق سے ربط غم کو بقا
کہ اب تو ملنے بچھڑنے کا مدعا ہی گیا
نہ گھر رہا نہ سکوں نا یہ زندگی ہی رہی
گیا ہے سب نہ مگر درد یا الٰہی گیا
یہ درد عشق ہے عالمؔ کسی کے بس میں کہاں
رہا رہا نہ رہا نہ گیا تو نا ہی گیا
غزل
غم فراق بھی آخر فروغ پا ہی گیا
مکیش عالم