غم دوست کو آسائش دنیا سے غرض کیا
بیمار محبت کو مسیحا سے غرض کیا
سر تا بہ قدم بندۂ تسلیم و رضا ہوں
مجھ عاشق صادق کو تمنا سے غرض کیا
کوچہ ہے ترا اور ہے دن رات کا چکر
وحشی کو ترے گلشن و صحرا سے غرض کیا
وعدہ نہ کرو جلوۂ دیدار دکھاؤ
امروز کے مشتاق کو فردا سے غرض کیا
تم باغ میں جاتے ہو تو گل کھلتے ہیں کیا کیا
پھولوں کو تمہارے رخ زیبا سے غرض کیا
عقل اتنی کہاں ہے کہ جو انجام کو سوچے
دنیا کے طلب گار کو عقبیٰ سے غرض کیا
احباب ہیں مے خانہ ہے پہلو میں ہے معشوق
اب حضرت شنکرؔ کو تمنا سے غرض کیا

غزل
غم دوست کو آسائش دنیا سے غرض کیا
شنکر لال شنکر