EN हिंदी
غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں | شیح شیری
gham-e-dil hita-e-tahrir mein aata hi nahin

غزل

غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں

شکیب جلالی

;

غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں
جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں

اوس کی بوندوں میں بکھرا ہوا منظر جیسے
سب کا اس دور میں یہ حال ہے میرا ہی نہیں

برق کیوں ان کو جلانے پہ کمر بستہ ہے
میں تو چھاؤں میں کسی پیڑ کی بیٹھا ہی نہیں

اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا
کون سا عرش ہے جس کا کوئی زینہ ہی نہیں

کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئنہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں

بوجھ لمحوں کا ہر اک سر پہ اٹھائے گزرا
کوئی اس شہر میں سستانے کو ٹھہرا ہی نہیں

سایہ کیوں جل کے ہوا خاک تجھے کیا معلوم
تو کبھی آگ کے دریاؤں میں اترا ہی نہیں

موتی کیا کیا نہ پرے ہیں تہ دریا لیکن
برف لہروں کی کوئی توڑنے والا ہی نہیں

اس کے پردوں پہ منقش تری آواز بھی ہے
خانۂ دل میں فقط تیرا سراپا ہی نہیں

حائل راہ تھے کتنے ہی ہوا کے پربت
تو وہ بادل کہ مرے شہر سے گزرا ہی نہیں

یاد کے دائرے کیوں پھیلتے جاتے ہیں شکیبؔ
اس نے تالاب میں کنکر ابھی پھینکا ہی نہیں