غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے
کہ یہ بادہ بھی مرے ظرف سے کم ہوتا ہے
کب مری شام تمنا کو ملے گا اے دوست
وہ سویرا جو ترا نقش قدم ہوتا ہے
بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے
ہائے وہ محویت دید کا عالم جس وقت
اپنی پلکوں کا جھپکنا بھی ستم ہوتا ہے
غم ہوا کرتا ہے آغاز میں اپنا لیکن
وہی بڑھتا ہے تو ہر ایک کا غم ہوتا ہے
عشق کر دیتا ہے جب آنکھ پہ جادو تو شمیمؔ
دیر ہوتا ہے نظر میں نہ حرم ہوتا ہے
غزل
غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے
شمیم کرہانی