EN हिंदी
غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے | شیح شیری
gham do aalam ka jo milta hai to gham hota hai

غزل

غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے

شمیم کرہانی

;

غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے
کہ یہ بادہ بھی مرے ظرف سے کم ہوتا ہے

کب مری شام تمنا کو ملے گا اے دوست
وہ سویرا جو ترا نقش قدم ہوتا ہے

بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے

ہائے وہ محویت دید کا عالم جس وقت
اپنی پلکوں کا جھپکنا بھی ستم ہوتا ہے

غم ہوا کرتا ہے آغاز میں اپنا لیکن
وہی بڑھتا ہے تو ہر ایک کا غم ہوتا ہے

عشق کر دیتا ہے جب آنکھ پہ جادو تو شمیمؔ
دیر ہوتا ہے نظر میں نہ حرم ہوتا ہے