EN हिंदी
غم چھیڑتا ہے ساز رگ جاں کبھی کبھی | شیح شیری
gham chheDta hai saz-e-rag-e-jaan kabhi kabhi

غزل

غم چھیڑتا ہے ساز رگ جاں کبھی کبھی

قابل اجمیری

;

غم چھیڑتا ہے ساز رگ جاں کبھی کبھی
ہوتی ہے کائنات غزل خواں کبھی کبھی

ہم نے دیئے ہیں عشق کو تیور نئے نئے
ان سے بھی ہو گئے ہیں گریزاں کبھی کبھی

اے دولت سکوں کے طلبگار دیکھنا
شبنم سے جل گیا ہے گلستاں کبھی کبھی

ہم بے کسوں کی بزم میں آئے گا اور کون
آ بیٹھتی ہے گردش دوراں کبھی کبھی

کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
یوں بھی ہوا ہے جشن چراغاں کبھی کبھی