EN हिंदी
غم بھی اتنا نہیں کہ تم سے کہیں | شیح شیری
gham bhi utna nahin ki tum se kahen

غزل

غم بھی اتنا نہیں کہ تم سے کہیں

اعجاز عبید

;

غم بھی اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
اور چارہ نہیں کہ تم سے کہیں

آج ہم بے کراں سمندر ہیں
تم وہ دریا نہیں کہ تم سے کہیں

یوں تو مرنے سے چین ملتا ہے
یہ ارادہ نہیں کہ تم سے کہیں

نیلی آنکھوں کی چاندنی کے لیے
اب اندھیرا نہیں کہ تم سے کہیں

تم اکیلے نہیں رہے تو کیا
ہم بھی تنہا نہیں کہ تم سے کہیں

اب نہ وہ غم کہ اپنے ہاتھ عبیدؔ
شبنم آسا نہیں کہ تم سے کہیں