گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سناٹے تک اپنا حال تماشا ہے
بوجھل آنکھیں کب تک آخر نیند کے وار بچائیں گی
پھر وہی سب کچھ دیکھنا ہوگا صبح سے جو کچھ دیکھا ہے
دھوپ مسافر چھاؤں مسافر آئے کوئی کوئی جائے
گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستہ ہے
آدھی عمر کے پس منظر میں شانہ بہ شانہ گام بہ گام
تو ہے کہ تیری پرچھائیں ہے میں ہوں کہ میرا سایہ ہے
ہم ساحل کی سرد ہوا میں خوابوں سے الجھے ہیں فروغؔ
اور ہمارے نام کا دریا صحرا صحرا بہتا ہے
غزل
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
رئیس فروغ