گلیاں ہیں بہت سی ابھی دیوار کے آگے
سنسار ملیں گے تجھے سنسار کے آگے
معنی کی نئی شرحیں تھیں ہر بات میں اس کی
اقرار سے پہلے کبھی انکار کے آگے
تقدیر جسے کہتے ہیں دنیا کے مفکر
زردار کے پیچھے ہے تو نادار کے آگے
ان کو بھی سمجھنا ہے ابھی صاحب ادراک
ہوتے ہیں حقائق بھی تو اخبار کے آگے
کیا عزت سادات ذرا دیر نہ ٹھہری
دستار بھی پازیب کی جھنکار کے آگے
اب ہاتھ قلم ہونے ہیں کیا گزری ہو سوچو
جب بات گئی ہوگی یہ معمار کے آگے
محدود ہی ہوتی ہے سدا سطوت شمشیر
لانا ہے قلم کو تری تلوار کے آگے

غزل
گلیاں ہیں بہت سی ابھی دیوار کے آگے
قیصر خالد