گلی سے تیری جو ٹک ہو کے آدمی نکلے
تو اس کے سایہ سے جھٹ بن کے اک پری نکلے
خیال میں ترے چہرے کی مر گیا ہو جو شخص
تو اس کی خاک سے سونے کی آرسی نکلے
بعید شان سے عاشق کے آہ بھرنی تھی
ولی وہ کیا کرے جب اس کی جان ہی نکلے
کسی کے ہوش کو کہہ دو اگر چلا چاہے
تو اپنے گھر سے کمر باندھ کر ابھی نکلے
نشان آہ لیے چھاؤں چھانو تاروں کے
چلے گی فوج سرشک آج چاندنی نکلے
کجی طبیعت کج فہم سے ہو تب منفک
کسی دوا سے دم سگ کے گر کجی نکلے
ہزار شکر کہ انشاؔ کسی کی محفل میں
خفا سے آئے تھے پر ہو ہنسی خوشی نکلے
غزل
گلی سے تیری جو ٹک ہو کے آدمی نکلے
انشاءؔ اللہ خاں