گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
ہوئی تھی صلح کس مشکل سے پھر جھگڑا نکل آیا
میں اپنے شور کے صدقے کہ دیکھا آج تو اس کو
بھرا غصے میں گھر سے شوخ بے پروا نکل آیا
ندامت جو ہوئی دیں گالیاں افسانہ گویوں کو
وہ سنتے تھے کہانی ذکر کچھ میرا نکل آیا
کسی کا گھر نہیں یہ تو گلی ہے سوچ او ظالم
گھر اکتا کس لیے ہے بھول کر اس جا نکل آیا
مری تقدیر بدلی ضعف سے آواز کیا بدلی
وہ اپنے دل میں دشمن کی صدا سمجھا نکل آیا
جو سچ پوچھو تو صدقے میں تمہارے عکس عارض کے
کنول پھولے دلوں کے رنگ غنچوں کا نکل آیا
نسیمؔ ان کو جو اپنا جذب خاطر اس طرف لایا
گلے مل مل کے روئے حوصلہ دل کا نکل آیا
غزل
گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
نسیم دہلوی