گلے لپٹے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
نہ پوچھو حسرت تشنہ دہانی
وہ مستسقی ہوں جو پانی کو ترسے
لگا کے ٹھٹ ہے ہر سونا مرادی
تمنائے دلی نکلے کدھر سے
تہ و بالا اگر کرنا ہے منظور
کرو نیچی نگاہیں بام پر سے
ملے گا خاک بت خانے میں جا کر
برہمن اور کچھ پوجیں گے گھر سے
جو سو جاتے ہیں گھڑیالی شب وصل
مرے خود کان بجتے ہیں گجر سے
مری گردن یہ تیغ اپنی لگا دیکھ
نہیں فرق اک سر مو ہاتھ بھر سے
ملیں گے منزل اول نکیریں
دھڑکتا دل ہے قزاقوں کے ڈر سے
وہ دامن در ہوں تربت پر مری شادؔ
سحاب بے کسی پھٹ پھٹ کے برسے
غزل
گلے لپٹے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
شاد لکھنوی