EN हिंदी
گلے لگائے رہا سب کا دھیان تھا اتنا | شیح شیری
gale lagae raha sab ka dhyan tha itna

غزل

گلے لگائے رہا سب کا دھیان تھا اتنا

شاد نوحی

;

گلے لگائے رہا سب کا دھیان تھا اتنا
گئی رتوں کا شجر مہربان تھا اتنا

نہ جانے کتنے سمندر اتر گئے ہوں گے
کسی کے پاؤں کا گہرا نشان تھا اتنا

خلاؤں میں حد فاصل کو کھینچنے والو
زمیں سے دور کبھی آسمان تھا اتنا

کھڑا ہے سامنے بن کر خلوص کا پیکر
جو شخص دیکھنے میں بد زبان تھا اتنا

بدن سے روح نکلنے کے بعد لوٹ آئی
وہ مر کے بھی نہ مرا سخت جان تھا اتنا

وہ اپنے قد کو بڑھا کر بھی چھو نہیں پائے
جھکا ہوا یہ ترا سائبان تھا اتنا

کوئی چراغ سحر تک نہ چل سکا اے شادؔ
گلی کے موڑ پہ خونی مکان تھا اتنا