گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے
کسی طرح یہ شجر مجھ پہ مہرباں ہو جائے
ستارے جھاڑ کے بالوں سے اب یہ کہتا ہوں
کوئی زمین پہ رہ کر نہ آسماں ہو جائے
اسی لئے تو اداسی سے گفتگو نہیں کی
کہیں وہ بات نہ باتوں کے درمیاں ہو جائے
یہ زخم ایسے نہیں ہیں کہ جو دکھائیں تمہیں
یہ رنج ایسا نہیں ہے کہ جو بیاں ہو جائے
بلا رہا ہے کوئی آسماں کی کھڑکی سے
سو آج خاک نشیں تیرا امتحاں ہو جائے
غزل
گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے
عابد ملک