غلط نہیں ہے دل صلح خو جو بولتا ہے
مگر یہ حرف بغاوت لہو جو بولتا ہے
مرے اجڑنے کی تکمیل کب ہوئی جاناں
درخت یاد کی ٹہنی پہ تو جو بولتا ہے
سر سکوت عدم کس کے ہونٹ ہلتے ہیں
کوئی تو ہے پس دیوار ہو جو بولتا ہے
زمانے تیری حقیقت سمجھ میں آتی ہے
ہوا کی تھاپ سے خالی سبو جو بولتا ہے
نفاستوں کا قرینہ ہے تیری خاموشی
مگر یہ جیب کا تار رفو جو بولتا ہے
ادھر یہ کان ہیں قہر خزاں جو سنتے ہیں
ادھر وہ پیڑ ہے سحر نمو جو بولتا ہے
نفس کے جال میں کب قید ہو سکا ارشدؔ
وہ اک پرند فنا کو بہ کو جو بولتا ہے
غزل
غلط نہیں ہے دل صلح خو جو بولتا ہے
ارشد عبد الحمید