غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
یہ جنس مشترک ہے جو کبھی ان کی کبھی میری
حجاب اٹھتے چلے جاتے ہیں اور میں بڑھتا جاتا ہوں
کہاں تک مجھ کو لے جاتی ہے دیکھوں بے خودی میری
توہم تھا مجھے نقش دوئی کس طرح مٹتا ہے
نقاب رخ الٹ کر اس نے صورت کھینچ دی میری
ادھر بھی اڑ کے آ خاکستر دل منتظر میں ہوں
لگا لوں تجھ کو آنکھوں سے تو ہی ہے زندگی میری
عزیزؔ اک دن مجھے یہ رازداری ختم کر دے گی
کسی نے بات ادھر کی اور رنگت اڑ گئی میری

غزل
غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
عزیز لکھنوی