غیروں کو عطا اور جفا میرے لئے ہے
خوش ہوں کہ محبت کی سزا میرے لئے ہے
خوش ہو کے ابھی تیشۂ فرہاد اٹھا لے
اے عشق یہ قدرت کی عطا میرے لئے ہے
تم جو بھی کرو مالک و مختار ہو صاحب
پابندی پیمان وفا میرے لئے ہے
کھل پائے گا کب عقدۂ راز دل بلبل
رہنے دو اسے کام مرا میرے لئے ہے
جائیں گے کہاں چھوڑ کے یہ زیست کے ساماں
یہ باغ یہ جنت کی ہوا میرے لئے ہے
کچھ ربط نہیں غیر کا ان سے غم دوراں
یہ برق یہ طوفان بلا میرے لئے ہے
کیوں نورؔ جھکاتے کہیں اپنا سر اقدس
در تیرا جو سجدے کو بنا میرے لئے ہے

غزل
غیروں کو عطا اور جفا میرے لئے ہے
نور محمد نور