غیر پوچھیں بھی تو ہم کیا اپنا افسانہ کہیں
اب تو ہم وہ ہیں جسے اپنے بھی بیگانہ کہیں
وہ بھی وقت آیا کہ دل میں یہ خیال آنے لگا
آج ان سے ہم غم دوراں کا افسانہ کہیں
کیا پکارے جائیں گے ہم ایسے دیوانے وہاں
ہوش مندوں کو بھی جس محفل میں دیوانہ کہیں
شب کے آخر ہوتے ہوتے دونوں ہی جب جل بجھے
کس کو سمجھیں شمع محفل کس کو پروانہ کہیں
اور کچھ کہنا تو گستاخی ہے شان شیخ میں
ہاں مگر ناواقف آداب مے خانہ کہیں
آج تنہائی میں پھر آنکھوں سے ٹپکا ہے لہو
جی کے بہلانے کو آؤ اپنا افسانہ کہیں
ان سے رونق قتل گہہ کی ان سے گرمی بزم کی
کہنے والے اہل دل کو لاکھ دیوانہ کہیں
ہیں بہم موج شراب و سیل اشک و جوئے خوں
لائق سجدہ ہے جس کو خاک مے خانہ کہیں
ان کی اس چین جبیں کا کچھ تقاضا ہو مگر
کیا غم دل کی حقیقت کو بھی افسانہ کہیں
غزل
غیر پوچھیں بھی تو ہم کیا اپنا افسانہ کہیں
علی جواد زیدی