غیر ممکن ہے کہ مٹ جائے صنم کی صورت
دل کا یہ نقش نہیں نقش قدم کی صورت
رات بیمار پہ بھاری ہے کہیں تار نفس
ٹوٹ جائے نہ ترے قول و قسم کی صورت
مے کشو خوب پیو اتنا مگر ہوش رہے
جام چھلکے نہ کبھی دیدۂ نم کی صورت
ہم سا بد بخت زمانے میں کوئی کیا ہوگا
ہم کو خوشیاں بھی ملیں درد و الم کی صورت
کون ہے جس سے ہمیں پیار کے دو بول ملیں
آج کے لوگ ہیں پتھر کے صنم کی صورت
فکر و احساس کی آنچوں سے پگھل کر واحدؔ
مثل شمشیر ہوئی اپنے قلم کی صورت
غزل
غیر ممکن ہے کہ مٹ جائے صنم کی صورت
واحد پریمی