غیر کی آگ میں کوئی بھی نہ جلنا چاہے
ایک پروانہ جو یہ ریت بدلنا چاہے
دل کہ ہر گہرے سمندر میں اترنا چاہے
تیز رو عمر کہ دم بھر نہ ٹھہرنا چاہے
قسمت ایسی کہ جو اپنے تھے ہوئے بیگانے
اور دل وہ جو کسی سے نہ بچھڑنا چاہے
ذرہ ذرہ جسے اک عمر سمیٹا ہے وہ ذات
صرف اک ٹھیس پہنچنے پہ بکھرنا چاہے
زخم ہر سنگ ملامت ابھی تازہ ہے یہ دل
پھر اسی کوئے ملامت سے گزرنا چاہے

غزل
غیر کی آگ میں کوئی بھی نہ جلنا چاہے
شاہد عشقی