غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں
میں بیابانوں میں رونے کو نکل جاتا ہوں
جوش وحشت کا ہوا موسم گل آ پہنچا
کچھ دنوں ہوش میں رہتا ہوں سنبھل جاتا ہوں
اپنی رخصت ہے بتوں سے بھی اب انشا اللہ
دیر سے سوئے حرم آج ہی کل جاتا ہوں
کوچۂ قاتل بے رحم جسے کہتے ہیں
میں وہاں دوڑ کے مشتاق اجل جاتا ہوں
جب نکلنے نہیں دیتے ہیں مجھے زنداں سے
اپنے آپے سے میں ناچار نکل جاتا ہوں
غیر البتہ ترے پاؤں میں ملتے ہیں حنا
میں تو آ کر کف افسوس ہی مل جاتا ہوں
میں جو روتا ہوں تو کہتا ہے نہ کر بد شگنی
بات کہتا ہے وہ ایسی کہ دہل جاتا ہوں
دوست ہوتا ہے تو ہوتا ہے وہ دشمن اے مہرؔ
وہ بدل جاتا ہے یا کچھ میں بدل جاتا ہوں
غزل
غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں
حاتم علی مہر