غیر آئے پیچھے پا گئے مجرے کا بار پہلے
ہم آہ بیٹھے رہ گئے آئے ہزار پہلے
میں عرض حال اس سے کیوں کر کروں مکرر
کوئی بول بھی سکے ہے واں ایک بار پہلے
گر جانتے کہ آخر خواہان جاں تو ہوگا
دل دیتے پیچھے جی کو کرتے نثار پہلے
جانا نہ تھا پریشاں کر دے گی تو وگرنہ
ہم پیچ میں بھی آتے اے زلف یار پہلے
مقتل میں جب وہ قاتل تروار لے کے آیا
کہنے لگا حضور آ لے تو ہی وار پہلے
میں سر جھکا کے آگے پہنچا ہے اور کیا عرض
اس سے بھی کچھ ہے بہتر حاضر ہوں یار پہلے
تب دیکھ دیکھ بولا ترسا کے مارنا ہے
نیں مارنے کا تجھ کو میں زینہار پہلے

غزل
غیر آئے پیچھے پا گئے مجرے کا بار پہلے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی