گئی فصل بہار گلشن سے
بلبلوں اڑ چلو نشیمن سے
فاتحہ بھی پڑھا نہ تربت پر
جا کے لوٹ آئے میری مدفن سے
مجھ کو کافی تھی قید حلقۂ زلف
بیڑیاں کیوں بنائیں آہن سے
زلف کے پیچ سے نہ رہ غافل
دوستی کر دلا نہ دشمن سے
ہو گریباں کا چاک خاک رفو
تار ہاتھ آئے جب نہ دامن سے
ناز و عشوہ نیا نہیں سیکھا
شوخ طرار ہے لڑکپن سے
چھوڑ کر تم اگر گئے تنہا
جی نکل جائے گا مرے تن سے
ہے کئی دن سے منتظر رعناؔ
جلوہ دکھلاؤ آ کے چلمن سے
غزل
گئی فصل بہار گلشن سے
مردان علی خاں رانا