غیب سے سحرا نوردوں کا مداوا ہو گیا
دامن دشت جنوں زخموں کا پھاہا ہو گیا
موت آئی جی گئے چھٹ کر غم و اندوہ سے
یہ نیا مرنا ہے جس کا نام جینا ہو گیا
خود کو بھی دیکھا نہ آنکھیں کھول کر مثل حباب
بحر ہستی میں فقط دم کا دمامہ ہو گیا
یہ زمانہ وہ نہیں منہ سے نکالے حق کوئی
یاد کر منصور پر کیا حشر برپا ہو گیا
صورتیں کیا کیا نہ بدلیں میرے سوز عشق نے
اشک آنکھوں میں بنا ہونٹوں پہ چھالا ہو گیا
ناز سے چھاتی پر اس نے پاؤں جس دم رکھ دیا
دل ہوا ٹھنڈا کلیجہ ہاتھ بھر کا ہو گیا
ہم نے پالا مدتوں پہلو میں ہم کوئی نہیں
تم نے دیکھا اک نظر سے دل تمہارا ہو گیا
کہنے کو مجذوب ہم ہیں دل میں گویا اور ہے
نیک و بد جو کچھ ہمارے منہ سے نکلا ہو گیا
جب سے اے تسلیمؔ کی ہے بیعت دست سبو
دین ساغر ہو گیا ایمان مینا ہو گیا
غزل
غیب سے سحرا نوردوں کا مداوا ہو گیا
امیر اللہ تسلیم