گہری رات ہے اور طوفان کا شور بہت
گھر کے در و دیوار بھی ہیں کمزور بہت
تیرے سامنے آتے ہوئے گھبراتا ہوں
لب پہ ترا اقرار ہے دل میں چور بہت
نقش کوئی باقی رہ جائے مشکل ہے
آج لہو کی روانی میں ہے زور بہت
دل کے کسی کونے میں پڑے ہوں گے اب بھی
ایک کھلا آکاش پتنگیں ڈور بہت
مجھ سے بچھڑ کر ہوگا سمندر بھی بے چین
رات ڈھلے تو کرتا ہوگا شور بہت
آ کے کبھی ویرانئ دل کا تماشا کر
اس جنگل میں ناچ رہے ہیں مور بہت
اپنے بسیرے پنچھی لوٹ نہ پایا زیبؔ
شام گھٹا بھی اٹھی تھی گھنگھور بہت
غزل
گہری رات ہے اور طوفان کا شور بہت
زیب غوری