EN हिंदी
گہری آنکھوں میں یہ کیسی ہے بچھڑتی محفلوں کی روشنی | شیح شیری
gahri aaankhon mein ye kaisi hai bichhaDti mahfilon ki raushni

غزل

گہری آنکھوں میں یہ کیسی ہے بچھڑتی محفلوں کی روشنی

محمد اجمل نیازی

;

گہری آنکھوں میں یہ کیسی ہے بچھڑتی محفلوں کی روشنی
اجنبی لوگوں میں دیکھی میں نے اپنے دوستوں کی روشنی

منزلوں پر وہ پہنچ کر بھی ابھی تک منزلوں جیسا نہیں
اس کی سوچوں سے بندھی ہے راستے کے منظروں کی روشنی

اس کے میرے درمیاں پاکیزگی کا رقص تو ہوتا نہیں
ایک پردے کی طرح رہتی ہے ننگی خواہشوں کی روشنی

میں نے اس کو خواب میں دیکھا تو وہ اک اور ہی دنیا میں تھا
اس کے ہر جانب بکھرتی جا رہی تھی رت جگوں کی روشنی

اب تو اس کا درد بھی اجملؔ سمندر کی طرح گہرا نہیں
اس جزیرے میں بھٹکتی ہے اکیلے ساحلوں کی روشنی