گہرائیوں سے مجھ کو کسی نے نکال کے
پھینکا ہے آسمان کی جانب اچھال کے
میں نے زمیں کو ناپ لیا آسمان تک
نظروں میں فاصلے ہیں عروج و زوال کے
چہرے ہر اک سے پوچھ رہے ہیں کوئی جواب
شعلوں پہ کچھ نشان لگے ہیں سوال کے
لوگ میں اب وہ چرب زبانی نہیں رہی
یا ہجر میں اداس ہیں قصے وصال کے
ہر شخص سے ملا ہوں بڑی احتیاط سے
ہر شخصیت کو میں نے پڑھا ہے سنبھال کے
اب شاعری سے صرف ہے لفظوں کا واسطہ
رشتے تمام ہو گئے فکر و خیال کے
غزل
گہرائیوں سے مجھ کو کسی نے نکال کے
احمد وصی