گہرا سکوت ذہن کو بے حال کر گیا
سوچوں کے پھول پھول کو پامال کر گیا
سورج نے اپنی آنچ کو واپس بلا لیا
لیکن مرے لہو کو وہ سیال کر گیا
کیا فیصلہ دیا ہے عدالت نے چھوڑیئے
مجرم تو اپنے جرم کا اقبال کر گیا
جو لوگ دور تھے وہ بہت دور ہو گئے
یہ تازہ حادثہ بھی گیا سال کر گیا
سہمے ہوئے ہیں چاروں طرف روشنی کے عکس
اک ہاتھ آ کے سرخ کئی گال کر گیا
میں دو قدم چلا تھا کہ ڈھلوان آ گئی
افضلؔ سفر تو میرا برا حال کر گیا
غزل
گہرا سکوت ذہن کو بے حال کر گیا
افضل منہاس