گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے
اب تک تو آبرو سے نبھی ہے جہاں رہے
دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پہ اس طرح
دشمن کے گھر میں جیسے کوئی میہماں رہے
اے دیدہ دل کو روتے ہو کیا تم ہمیں تو یاں
یہ جھینکنا پڑا ہے کسی طرح جاں رہے
قسمت تو دیکھ بار بھی اپنا گرا تو واں
جس دشت پر خطر میں کئی کارواں رہے
صحبت کی گرمی ہم سے کوئی سیکھے مثل شمع
سارے ہوئے سفید پہ تد بھی جواں رہے
مسجد سے گر تو شیخ نکالا ہمیں تو کیا
قائمؔ وہ مے فروش کی اپنے دکاں رہے
قائمؔ اسی زمیں کو تو پھر کہہ پر اس طرح
سن کر جسے کہ چرخ میں نت آسماں رہے
غزل
گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے
قائم چاندپوری