گئے موسموں کو بھلا دیں گے ہم
کھنڈر کا دیا بھی بجھا دیں گے ہم
ابھی صرف چہروں کو پڑھتے رہو
کہانی کسی دن سنا دیں گے ہم
دبی آگ سنتے ہیں بجھتی نہیں
تجھے خاک دل اب اڑا دیں گے ہم
زمانے ہمارا سخن پاس رکھ
تجھے اور غربت میں کیا دیں گے ہم
مٹے حبس جاں کوئی لب تو ہلے
اڑی بات کو اب ہوا دیں گے ہم
نظر ہم پہ رکھتا ہے صحرا سہیلؔ
یہ ڈر ہے کہیں گل کھلا دیں گے ہم

غزل
گئے موسموں کو بھلا دیں گے ہم
سہیل احمد زیدی