گئے ہیں جب سے وہ اٹھ کے یاں سے ہے حال باہر مرا بیاں سے
کہے کوئی اتنا جان جاں سے ملو نہیں تو گیا میں جاں سے
جو کچھ گزرتا ہے میرے دل پر سناؤں کس کو وہ ہائے دل بر
خدا کرے پھر وہ دن میسر کہوں میں اپنی ہی سب زباں سے
کبھی خفا ہو کے بات کرنا کبھی وہ کہہ کہہ کے پھر مکرنا
پھر الٹا بہتان مجھ پہ دھرنا یہ طرز تم نے لیا کہاں سے
کبھی ترے غم میں مجھ کو رونا کبھی پھر آپھی ہے چپکے ہونا
جو یاد آتا ہے ساتھ سونا تو رات کٹتی ہے کس فغاں سے
گھڑی گھڑی ہجر کی ہے بہاری دکھائے صورت خدا تمہاری
سنوں وہ باتیں پیاری پیاری عجب ادا سے عجب بیاں سے
ترا خفا ہو کے روٹھ جانا وہ منتوں سے مرا منانا
وہ اپنی اپنی سی کچھ سنانا وہ باتیں بھی آپ دل ستاں سے
عجب ہی دشمن سے دوستی کی کہ شکل اب ہے یہ زندگی کی
لبوں پہ چکی ہے جاں کنی کی پڑے ہیں بے ہوش نیم جاں سے
کہا کچھ اس نے یہاں کسی سے یہ بات قاصد نہیں ہنسی سے
گمان ہوتا ہے اور ہی سے ترے الجھتے ہوئے بیاں سے
نظامؔ کیوں تو نے اس کو چاہا یہ دل میں کیا تھی جو دل لگایا
جو دیوے توفیق کچھ بھی مولا تو اب نہ ملنا کبھی بتاں سے
غزل
گئے ہیں جب سے وہ اٹھ کے یاں سے ہے حال باہر مرا بیاں سے
نظام رامپوری