گئے دنوں کے فسانے سنا رہی ہے مجھے
یہ رات اور بھی پاگل بنا رہی ہے مجھے
یہ دھندلی دھندلی سی پرچھائیاں ہیں یا خلقت
اٹھائے سنگ ملامت ڈرا رہی ہے مجھے
کھلا وہ ایک دریچہ گھنے درختوں میں
وہ سبز پوش ہوا پھر بلا رہی ہے مجھے
مجھے تو چاند کہیں بھی نظر نہیں آتا
کوئی کرن سی مگر جگمگا رہی ہے مجھے
مہک اٹھی ہے اچانک گلی گلی دل کی
کلی کلی سے تری باس آ رہی ہے مجھے
چمن چمن مری آوارگی کے چرچے ہیں
نگر نگر کوئی آندھی اڑا رہی ہے مجھے
میں زندگی کی سخاوت پہ کانپ اٹھتا ہوں
کہ بے دریغ یہ ظالم لٹا رہی ہے مجھے
غزل
گئے دنوں کے فسانے سنا رہی ہے مجھے
نور بجنوری