گئے دنوں کا حوالہ تھا کام کیا دیتا
گزر گیا وہ جواب سلام کیا دیتا
دیار شب سے بھی آگے مرا سفر تھا بہت
سو میرا ساتھ وہ ماہ تمام کیا دیتا
میں اس خرابۂ دل کے اجاڑ منظر میں
کسی کو دعوت سیر و قیام کیا دیتا
جو تو نہ آتا تو رنگ فسردگی کے سوا
مری نگاہ کو یہ حسن شام کیا دیتا
شکستہ پائی پہ جب مطمئن تھے راہرواں
میں قافلے کو دعائے خرام کیا دیتا
مجھے خبر ہے سرشت سفال میں ہے زوال
میں اپنے دل کو فریب دوام کیا دیتا
میں کوزہ گر کی دکاں پر رکھا رہا تا عمر
کوئی چراغ شکستہ کے دام کیا دیتا
اسی سے مجھ کو محبت اسی سے نفرت بھی
میں اس تعلق خاطر کو نام کیا دیتا
یہ شہر ہو گیا خالی سخن شناسوں سے
یہاں کوئی مجھے داد کلام کیا دیتا
غزل
گئے دنوں کا حوالہ تھا کام کیا دیتا
فراست رضوی