گئے برس کی یہی بات یادگار رہی
فضا غموں کے لیے خوب سازگار رہی
اگرچہ فیصلہ ہر بار اپنے حق میں ہوا
سزائے جرم بہرحال بر قرار رہی
بدلتی دیکھیں وفاداریاں بھی وقت کے ساتھ
وفا جہاں کے لیے ایک کاروبار رہی
اب اپنی ذات سے بھی اعتماد ان کا اٹھا
وہ جن کی بات کبھی حرف اعتبار رہی
خبر تھی گو اسے اب معجزے نہیں ہوتے
حیات پھر بھی مگر محو انتظار رہی
نہ کوئی حرف ملامت نہ کوئی کلمۂ خیر
یہ زیست اب نہ کسی کی بھی زیر بار رہی
یہ اور بات کہ دل غم میں خود کفیل ہوا
مگر وہ آنکھ مرے غم میں اشک بار رہی
غزل
گئے برس کی یہی بات یادگار رہی
شبنم شکیل