EN हिंदी
غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا | شیح شیری
ghaar se sang haTaya to wo Khaali nikla

غزل

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا

اقبال ساجد

;

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا

چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا
صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا

سب کی شکلوں میں تری شکل نظر آئی مجھے
قرعۂ فال مرے نام پہ گالی نکلا

راس آئے مجھے مرجھائے ہوئے زرد گلاب
غم کا پرتو مرے چہرے کی بحالی نکلا

کب گیا جسم مگر سائے تو محفوظ رہے
میرا شیرازہ بکھر کر بھی مثالی نکلا

رات جب گزری تو پھر صبح حنا رنگ ہوئی
چاند کی طرح مرا عکس خیالی نکلا

تخت خالی ہی رہا دل کا ہمیشہ ساجدؔ
اس ریاست کا تو کوئی بھی نہ والی نکلا