غالباً میرے علاوہ کوئی گزرا بھی نہیں
تیری منزل میں کہیں نقش کف پا بھی نہیں
آپ کی راہ میں دنیا نظر آتی ہے مجھے
اک قدم اور جو بڑھ جاؤں تو دنیا بھی نہیں
آپ کیا سوچ کے غم اپنا عطا کرتے ہیں
ہمت دل تو بہ قدر غم دنیا بھی نہیں
تم تو بے مثل ہو توحید محبت کی قسم
تم سا کیا ہوگا جہاں میں کوئی مجھ سا بھی نہیں
حشر کی بھیڑ میں ایک ایک کا منہ تکتا ہوں
اس بھری بزم میں اک جاننے والا بھی نہیں
حسن نے دعوت نظارہ ہر اک رنگ سے دی
عشق نے آنکھ اٹھا کر کبھی دیکھا بھی نہیں
ایک تم ہو کہ تمناؤں کے دشمن ہی رہے
ایک میں ہوں مجھے احساس تمنا بھی نہیں
جزو دل بن کے سماتی ہے محبت دل میں
یہ وہ کانٹا ہے کہ ہے اور کھٹکتا بھی نہیں
یاد آتی ہے صباؔ بے وطنوں کی کس کو
مجھ کو یاران وطن سے کوئی شکوہ بھی نہیں
غزل
غالباً میرے علاوہ کوئی گزرا بھی نہیں
صبا اکبرآبادی