غافل تری نظر ہی سے پردہ اٹھا نہ تھا
ورنہ وہ کس مقام پہ جلوہ نما نہ تھا
روشن چراغ عشق نے کی منزل حیات
ورنہ وہ تیرگی تھی کہ کچھ سوجھتا نہ تھا
مقصود ایک تیرے ہی در کی تھی جستجو
دیر و حرم سے مجھ کو کوئی واسطہ نہ تھا
آواز دے رہے تھے جسے بے خودی میں ہم
دیکھا تو وہ ہمیں تھے کوئی دوسرا نہ تھا
وہ تو شکایت اپنی وفاؤں کی تھی حضور
کچھ آپ کی جفاؤں کا شکوہ گلہ نہ تھا
مانا کہ دور تھا تو نگاہوں سے اے کریم
لیکن ترا خیال تو دل سے جدا نہ تھا
ہم آپ اپنی منزل مقصود تھے امیدؔ
جاتے کہاں کہ خود سے پرے راستہ نہ تھا

غزل
غافل تری نظر ہی سے پردہ اٹھا نہ تھا
رگھوناتھ سہائے