گاڑی کی کھڑکی سے دیکھا شب کو اس کا شہر
چاروں اور تھا کالا جنگل بیچ میں اجلا شہر
یاد نہ آتا کیوں گاؤں میں ہم کو بھی لاہور
لوگ سمندر پار نہ پائیں اس سے اچھا شہر
سچ ہے ہر اک ملک خدا کا دیس ہے ہر انساں کا
لیکن اپنا شہر ہے یارو آخر اپنا شہر
خواب میں سن کر جاگ اٹھتا ہوں ان کی چیخ پکار
اف وہ لڑتے مرتے باسی اف وہ جلتا شہر
پوشیدہ ہیں دل میں اس کی یادوں کے طوفان
دفن ہیں ایک کھنڈر کی تہہ میں کتنے زندہ شہر
مجھ پر اک گھنگھور اداسی تجھ پر رنگ اور نور
میرا چہرہ بن ہے پیار سے تیرا چہرہ شہر
کل کی بات ہے اور تھکن سے اب تک چور ہوں میں
اس لڑکی کا جسم تھا زاہدؔ اونچا نیچا شہر
غزل
گاڑی کی کھڑکی سے دیکھا شب کو اس کا شہر
زاہد فارانی