گا رہا ہوں خامشی میں درد کے نغمات میں
بن گیا اک ساحل ویراں کی تنہا رات میں
ایک دو سجدے ذرا شہر نگاراں کی طرف
اے غم ہستی ٹھہر چلتا ہوں تیرے ساتھ میں
زندگی میری تمناؤں مرے خوابوں کا روپ
پھول میں ہوں رنگ میں ہوں ابر میں برسات میں
اک شگفتہ درد اک شعلوں میں بجھتی چاندنی
اجنبی شہروں سے لایا ہوں یہی سوغات میں
بارہا اس سادگی پر خود ہنسی آئی مجھے
کر رہا ہوں کس زمانے میں وفا کی بات میں
ہر ابھرتی لو سے روشن ہو گیا میرا ضمیرؔ
بک گیا ہر مسکراتی روشنی کے ہاتھ میں
غزل
گا رہا ہوں خامشی میں درد کے نغمات میں
سید ضمیر جعفری