فضول شے ہوں مرا احترام مت کرنا
فقط دعا مجھے دینا سلام مت کرنا
کہیں رکے تو نہ پھر تم کو راستہ دے گی
یہ زندگی بھی سفر ہے قیام مت کرنا
وہ آشنا نہیں خوابوں کی معنویت کا
ہمارے خواب ابھی اس کے نام مت کرنا
زبان منہ میں ہے تار گنہ کی صورت
تمہارا حکم بجا ہے کلام مت کرنا
مرا وجود کہ ہے دانۂ قناعت سا
میں اک فقیر پرندہ ہوں دام مت کرنا
یہ بات سچ ہے یہاں گفتگو عوام سے ہے
مگر ادب کو گزر گاہ عام مت کرنا
فضاؔ چراغ و شفق دونوں رہزنوں کی متاع
جو خیر چاہو تو رستے میں شام مت کرنا
غزل
فضول شے ہوں مرا احترام مت کرنا
فضا ابن فیضی